اے عمرِ رواں گرمئ رفتار کہاں تک
گردِش میں رہیں صورتِ پرکار کہاں تک
پیوندِ جُنوں زینتِ پوشاکِ خِرد ہو
دامن تِرے یوسف کا رہے تار کہاں تک
دریا کو مِلیں بھینٹ میں شہزادیاں لیکن
بدلے میں ہمیں وادئ پُر خار کہاں تک
اب کشتئ جاں پاس کے ساحل سے لگا دیں
سینے پہ سہیں وقت کی پتوار کہاں تک
پیمانۂ دل دید سے بھر جائے گا آخر
منّت کشِ ساقی رہے مے خوار کہاں تک
درویش کے در پیش جو انبوہِ سگاں ہو
اطوارِ فقیری ہوں اثر دار کہاں تک؟
مشکیزہ وہی، پیاس کا عالم بھی وہی ہے
ہے عشق میں صحرا کا یہ کردار کہاں تک
فخر ولیم لالہ
No comments:
Post a Comment