Saturday 9 March 2024

فصیل جسم گرا کر بکھر نہ جاؤں میں

 فصیل جسم گرا کر بکھر نہ جاؤں میں

یہی خیال ہے جی میں کہ گھر نہ جاؤں میں

بدن کے تپتے جہنم میں خواہشوں کا سفر

اسی سفر کے بھنور میں اتر نہ جاؤں میں

ہوئی تمام مسافت اس ایک خواہش میں

کہ اب وہ لاکھ بلائے مگر نہ جاؤں میں

بکھیر دیتا ہے کچھ اور جب بھی ملتا ہے

اسے تو وہم یہی ہے سنور نہ جاؤں میں

وہ جس کی چاہ میں دشوار منزلیں طے کیں

خموش اس کے نگر سے گزر نہ جاؤں میں

نوید اس سے مِرا ربط لفظ و معنی کا

یہ رابطہ نہ رہے گر تو مر نہ جاؤں میں


زاہد نوید

No comments:

Post a Comment