چُھپے گی سامنے آ کر یہ خستہ حالی کیا
مِلے گا شہر میں ہم کو مکان خالی کیا
چھلک پڑے جو تمہیں دیکھ کر، بتاؤ مجھے
ان آنسوؤں نے مِری آبرو بچا لی کیا؟
یہ دھڑکنیں ہیں علامت، چُھپا ہوا تو نہیں
نظر کی اوٹ میں پیکر کوئی خیالی کیا
کسی طرح تو طلسمِ سکوتِ لب ٹُوٹے
کوئی تو رنگِ تبسم، یہ قحط سالی کیا
یہاں تو سب ہی پریشاں دکھائی دیتے ہیں
دُکھوں کے شور میں ہو گا بدن سوالی کیا
جواں ہوئے تو کئی سال ہو گئے احمد
ہے اب بھی اُس کی طبیعت میں لا اُبالی کیا
سید آل احمد
No comments:
Post a Comment