Saturday 2 March 2024

نادان ہوشیار بنے جن کے روپ سے

 نادان ہوشیار بنے جن کے روپ سے

وہ بھی جُھلس گئے ہیں حوادث کی دُھوپ سے

ہمراہ اجنبی کے بہت دور تک گیا

چہرہ تھا ملتا جلتا ذرا ان کے رُوپ سے

کیسی ہوا یہ آئی گُلستاں سے گرم گرم

کیا پُھول شعلے بن گئے ساون کی دُھوپ سے

کیا کیا نہ حادثے مرے دل پر گزر گئے

لیکن شگفتگی نہ گئی رنگ رُوپ سے

واجد اسے نہ منزل مقصود مل سکی

گھبرا کے رہ گیا جو مصائب کی دُھوپ سے


واجد سحری

No comments:

Post a Comment