نادان ہوشیار بنے جن کے روپ سے
وہ بھی جُھلس گئے ہیں حوادث کی دُھوپ سے
ہمراہ اجنبی کے بہت دور تک گیا
چہرہ تھا ملتا جلتا ذرا ان کے رُوپ سے
کیسی ہوا یہ آئی گُلستاں سے گرم گرم
کیا پُھول شعلے بن گئے ساون کی دُھوپ سے
کیا کیا نہ حادثے مرے دل پر گزر گئے
لیکن شگفتگی نہ گئی رنگ رُوپ سے
واجد اسے نہ منزل مقصود مل سکی
گھبرا کے رہ گیا جو مصائب کی دُھوپ سے
واجد سحری
No comments:
Post a Comment