آکسیجن بھی ہچکی بھرنے لگتی ہے
جب اک پیڑ پہ آری چلنے لگتی ہے
موٹر وے ہو یا پگڈنڈی، دیکھ کے چل
دُھند میں اکثر سمت بدلنے لگتی ہے
تیرے ہجر کا اندیشہ ایسے جیسے
پٹڑی پر سے ریل اُترنے لگتی ہے
آگ کسی کونے سے حملہ کرتی ہے
برف کسی کونے میں جمنے لگتی ہے
کُھل کر سانس گلی لینے لگ جاتی ہے
جب اک گھر کی کِھڑکی کُھلنے لگتی ہے
جادوگر حق بات اُگلنے لگتے ہیں
جب اک لکڑی سانپ نِگلنے لگتی ہے
مظہر فرید گبول
No comments:
Post a Comment