خُدا سے دل ہے بس اتنا دُعا گُزار مِرا
تمہارے چاہنے والوں میں ہو شمار مرا
کھڑے تھے روک کے غم راستہ ہزار مرا
تِری نظر نے نہ گرنے دیا وقار مرا
رہے گا یوں ہی ہمیشہ نہ دل فگار مرا
خدا نے چاہا تو بدلے گا حالِ زار مرا
لیے پھرے گی صبا دوش پر مِری خوشبو
بہار دیکھنے آئے گی پھر نکھار مرا
بس ایک آپ سے وابستہ صبح و شام مِرے
بس ایک آپ کی خاطر ہے انتظار مرا
مِرا نصیب ہے دنیا میں پھیل کر رہنا
کہ جاں ہے عشق مِری اور دل ہے پیار مرا
نظر اٹھا کے بھی دیکھا نہ غیر کی جانب
تمام عمر بس اک ذات تھی مدار مرا
خزاں ہے گھیرے ہوئے کب سے برگ و بار مِرا
نجانے بھول گئی رستہ کیوں بہار مرا
مِری کشش کبھی دلدار کم نہیں ہو گی
کہ صدق ہے میری زینت وفا سنگھار مرا
دلدار احمد علوی
No comments:
Post a Comment