Wednesday 28 February 2024

ہمارا جذب انہیں کھینچ لائے گا گھر سے

 ہمارا جذب اُنہیں کھینچ لائے گا گھر سے

یہ کب اُمید تھی پُھوٹے ہوئے مقدر سے

شہید کون ہُوا قتل گاہ میں خنجر سے

لہو جو روتی ہے تلوار چشم جوہر سے

بلائے جاں ہے بخیلوں کے واسطے دولت

ہلاک ہو گیا قارون کثرت زر سے

وہ دو گھڑی جو عیادت کو میری آئے تھے

ابھی تک آتی ہے بُوئے عروس بستر سے

مِٹے نہ سوزشِ دل آہِ سرد سے یا رب

یہ شمعِ بزم نہ ٹھنڈی ہو بادِ صرصر سے

غمِ فراق سے کیوں دل نہ ٹکڑے ٹکڑے ہو

کہ چُور چُور ہو شیشہ لڑے جو پتھر سے

جگر میں زخم کوئی پڑ گیا نیا شاید

لہو ٹپکتا ہے ہر وقت دیدۂ تر سے

جواب نامہ بھی بھیجا نہ یار نے عشرت

بہت خجل میں ہوا اپنے قلبِ مُضطر سے​


عشرت لکھنوی

خواجہ محمد عبدالرؤف

No comments:

Post a Comment