Wednesday, 21 February 2024

کتنی کشش ہے آج بھی رشتوں کے تار میں

 کتنی کشش ہے آج بھی رشتوں کے تار میں

کٹتی ہے صبح شام میری انتظار میں

ہر ہر قدم سنبھال کے رکھنے کے باوجود

ہم نے فریب کھائے بہت تیرے پیار میں

ساقی تیری نگاہ سے پینے کے باوجود

باقی ہے اب بھی ہوش تیرے بادہ خوار میں

لمحے خوشی کے ہوتے ہیں کیا ان سے پوچھئے

وہ لوگ جو اسیر ہیں غم کے حصار میں

وہ مسکرا کے کہنے لگے لے کے میرا دل

وہ جیت میں کہاں ہے مزہ ہے جو ہار میں

یہ اور بات مجھ سے وہ برہم ہیں آج کل

اب بھی مگر خلوص و محبت ہے یار میں

جب سے کرم نواز ہے ان کی نگاہِ ناز

برکت بہت ہے تب سے میرے روز گار میں

پھیکا ہے تیرے آگے حسیں چاندنی کا نور

تجھ سا کوئی حسین نہیں ہے ہزار میں

اک دل ہے، خواہشاتِ زمانہ ہے، بے شمار

اصغر نہیں ہے کچھ بھی میرے اختیار میں


اصغر علی

No comments:

Post a Comment