کتنی کشش ہے آج بھی رشتوں کے تار میں
کٹتی ہے صبح شام میری انتظار میں
ہر ہر قدم سنبھال کے رکھنے کے باوجود
ہم نے فریب کھائے بہت تیرے پیار میں
ساقی تیری نگاہ سے پینے کے باوجود
باقی ہے اب بھی ہوش تیرے بادہ خوار میں
لمحے خوشی کے ہوتے ہیں کیا ان سے پوچھئے
وہ لوگ جو اسیر ہیں غم کے حصار میں
وہ مسکرا کے کہنے لگے لے کے میرا دل
وہ جیت میں کہاں ہے مزہ ہے جو ہار میں
یہ اور بات مجھ سے وہ برہم ہیں آج کل
اب بھی مگر خلوص و محبت ہے یار میں
جب سے کرم نواز ہے ان کی نگاہِ ناز
برکت بہت ہے تب سے میرے روز گار میں
پھیکا ہے تیرے آگے حسیں چاندنی کا نور
تجھ سا کوئی حسین نہیں ہے ہزار میں
اک دل ہے، خواہشاتِ زمانہ ہے، بے شمار
اصغر نہیں ہے کچھ بھی میرے اختیار میں
اصغر علی
No comments:
Post a Comment