Sunday 18 February 2024

کوئی پردہ میان عشق حائل ہو نہیں سکتا

 کوئی پردہ میانِ عشق حائل ہو نہیں سکتا

یہ حد ہے تو بھی اب مدِ مقابل ہو نہیں سکتا

تِرا عہدِ محبت ٹُوٹ کر عہدِ محبت ہے

مگر دل ٹوٹ جاتا ہے تو پھر دل ہو نہیں سکتا

محبت میں پرستش کا مقام اونچا سہی، لیکن

یہ غم انسان کی فطرت میں شامل ہو نہیں سکتا

مِرے عزمِ سفر میں یہ تِرا حُسنِ سکون افزا

چراغِ راہ بن سکتا ہے، منزل ہو نہیں سکتا

گِرایا ہے نظر کی اس بلندی سے مجھے تُو نے

میں اب اپنی نگاہوں کے بھی قابل ہو نہیں سکتا


بلدیو راج

No comments:

Post a Comment