Monday, 19 February 2024

وہ روبرو ہوں تو یہ کیف اضطراب نہ ہو

 وہ روبرو ہوں تو یہ کیف اضطراب نہ ہو

خدا کرے نگہ شوق کامیاب نہ ہو

سوال کیا ہو کہ ان کی خموش نظروں میں

نہ دے سکے جو وہ اب تک وہی جواب نہ ہو

یہ کیا گماں ہے کہ وقت سحر کی بیداری

جو رات بیت چکی ہے اسی کا خواب نہ ہو

یہ انحطاط جنوں یہ خرد کی سست روی

کہیں یہ خامشی از قبل انقلاب نہ ہو

کہیں جنوں میں یہ میرا کمال ہوش و خرد

تری نگاہ تغافل کا پیچ و تاب نہ ہو

جنون غم ہے مرا پردۂ حجاب سے دور

کہ لا جواب ترا حسن لاجواب نہ ہو

سنا ہے وہ رخ زیبا نقاب میں ہے سحاب

کہیں یہ ہستئ موہوم ہی نقاب نہ ہو


شیو دیال سحاب

No comments:

Post a Comment