وہ روبرو ہوں تو یہ کیف اضطراب نہ ہو
خدا کرے نگہ شوق کامیاب نہ ہو
سوال کیا ہو کہ ان کی خموش نظروں میں
نہ دے سکے جو وہ اب تک وہی جواب نہ ہو
یہ کیا گماں ہے کہ وقت سحر کی بیداری
جو رات بیت چکی ہے اسی کا خواب نہ ہو
یہ انحطاط جنوں یہ خرد کی سست روی
کہیں یہ خامشی از قبل انقلاب نہ ہو
کہیں جنوں میں یہ میرا کمال ہوش و خرد
تری نگاہ تغافل کا پیچ و تاب نہ ہو
جنون غم ہے مرا پردۂ حجاب سے دور
کہ لا جواب ترا حسن لاجواب نہ ہو
سنا ہے وہ رخ زیبا نقاب میں ہے سحاب
کہیں یہ ہستئ موہوم ہی نقاب نہ ہو
شیو دیال سحاب
No comments:
Post a Comment