Saturday 17 February 2024

دریا کی موج ہی میں نہیں اضطراب ہے

 دریا کی موج ہی میں نہیں اضطراب ہے

سنگ رواں کے دل میں بھی اک زخم آب ہے

ہر فرد آج ٹوٹتے لمحوں کے شور میں

عصر رواں کی جاگتی آنکھوں کا خواب ہے

وہ خود ہی اپنی آگ میں جل کر فنا ہوا

جس سائے کی تلاش میں یہ آفتاب ہے

اب کوئی نصف دام پہ بھی پوچھتا نہیں

یہ زندگی نصاب سے خارج کتاب ہے

پلکوں پہ آج نیند کی کرچیں بکھر گئیں

شیشے کی آنکھ میں کوئی پتھر کا خواب ہے

اے کیف نا قدوں کے تعصب کے باوجود

میرا ہر ایک شعر ادب کی کتاب ہے


کیف احمد صدیقی

No comments:

Post a Comment