آپ کا عشق حقیقت سے زیادہ ہے کہیں
سو عقیدت یہ محبت سے زیادہ ہے کہیں
تُو مجھے جتنی سہولت سے ملا شکر تِرا
تُو مجھے میری ضرورت سے زیادہ ہے کہیں
یار حد درجہ تکلف کی ضرورت تو نہ تھی
یار یہ سب تو مروت سے زیادہ ہے کہیں
ایک دریا کی تڑپ ہے کسی پیاسے کے لیے
اور یہ حق اسے حسرت سے زیادہ ہے کہیں
رازقِ شعر و سخن شکریہ مولا تیرا
رزق اب تیری عنایت سے زیادہ ہے کہیں
زندگی میرے لیے اتنی بڑی بات نہیں
زندگی مجھ کو سہولت سے زیادہ ہے کہیں
نجم سالار کے تلوے نہیں چاٹے میں نے
جرم یہ میرا بغاوت سے زیادہ ہے کہیں
نجم الحسن کاظمی
No comments:
Post a Comment