ہماری پلکوں سے چند قطرے جو اشک بن کر ڈھلک پڑیں گے
یہ اجڑے گلشن میں پھول سارے ہمیں یقیں ہے مہک پڑیں گے
یہ چاند مکھرا، نشیلی آنکھیں، مثال ریشم گھنیری زلفیں
بچارے رندوں کی خیر یارب جو دیکھیں زاہد بہک پڑیں گے
خزاں رتوں میں بہار بن کر اے جان جاناں جو تم ملو گے
ہماری آنکھوں میں بجھتے تارے مثال جگنو چمک پڑیں گے
وہ زرد رنگوں کی شال اوڑھے افق پہ سورج ابھر رہا ہے
چٹک پڑیں گی یہ بند کلیاں، پرند سارے چہک پڑیں گے
اداس چہرہ جھکی نگاہیں زباں پہ قفل سکوت ڈالے
بس اپنے دھن میں وہ جارہے ہیں ذرا جو ٹوکو ٹھٹھک پڑیں گے
غزل کی پلکوں میں اشک بھر کر جو ساز غم چھیڑیے گا قیصر
چھلک پڑیں گی گلوں کی آنکھیں چمن کے مالی سسک پڑیں گے
قیصر جمیل ندوی
No comments:
Post a Comment