Monday 19 February 2024

مجھ سے مت پوچھ مرے درد کی شدت اے دوست

 مجھ سے مت پوچھ مِرے درد کی شدت اے دوست 

دل مِرا دیتا نہیں اس کی اجازت اے دوست

کیوں صفائی پہ صفائی دئیے جاتا ہے مجھے

میں نے تو کی ہی نہیں کوئی شکایت اے دوست

میرے ہر راز سے واقف ہوئی ساری دنیا

رنگ لے آئی ہے آخر تِری محنت اے دوست

زندہ رہتا ہے کوئی کیسے کسی پر مر کر

تُو نہ سمجھے گا یہ آزارِ محبت اے دوست

کم سے کم تُو تو نہ کر مجھ سے کتابی باتیں

شیخ ہی کافی ہے کرنے کو نصیحت اے دوست

کوئی ہر وقت ہی اچھا تو نہیں رہ سکتا

ہو ہی جاتا ہے برا حسبِ ضرورت اے دوست

تُو نے اچھا ہی کُیا ترکِ تعلق کر کے 

ورنہ کُھلتی نہیں مجھ پر مِری قیمت اے دوست

جن کو ہم نے کبھی چھلکایا نہیں، پیتے رہے

کیا بتائیں تجھے اُن اشکوں کی لذت اے دوست

بے یقینی کا وہ عالم ہے تِری دید کے بعد 

اب تلک بھی نہ گئی آنکھوں کی حیرت اے دوست


راجیش ریڈی

No comments:

Post a Comment