دُکھ کی اس لُو کو وہ پُروا کبھی ہونے دیتا
مجھ میں بکھرے کو اکٹھا کبھی ہونے دیتا
تیری خوشیوں میں خوشی اپنی ملا دی میں نے
دور خود سے تجھے ورنہ کبھی ہونے دیتا
یہ جو قسطوں میں اذیت ہے یہ کم ہو جاتی
رنج اک بار ہی سارا کبھی ہونے دیتا
کینچلی ہے کہ وہاں سانپ ہے، کھل تو جاتا
وہ پٹاری کو تماشا کبھی ہونے دیتا
مجھ میں ہر روز خسارہ ہی نکل آتا ہے
میرے تھوڑے کو زیادہ کبھی ہونے دیتا
آنکھ چہرے پہ بنا دی ہے مگر ہونٹ نہیں
مجھ ادھورے کو وہ پورا کبھی ہونے دیتا
طیش میں آ کے گرا دیتا وہ اک دن طاہر
مجھ میں پتھر کا چھناکا کبھی ہونے دیتا
قیوم طاہر
No comments:
Post a Comment