Tuesday, 13 February 2024

کھویا تجھے تو کوئی بھی دھڑکا نہیں رہا

 کھویا تجھے تو کوئی بھی دھڑکا نہیں رہا

حد ہے کہ اپنا آپ بھی اپنا نہیں رہا

اک درد ہے کہ دل میں کوئی دِیپ ضوفشاں

اک یاد ہے کہ میں کبھی تنہا نہیں رہا

تُو جا چکا ہے اور یہ کرتے ہیں ہم حساب

کیا کیا رہا ہے، اور اب کیا کیا نہیں رہا

باقی تو خیر آج بھی پہلے سا ہے وہ تُو

پر، تجھ پہ اختیار کا دعویٰ نہیں رہا

اُڑتی ہے ریت چار سُو آنکھوں میں ہِجر کی

دل میں جو موجزن تھا، وہ دریا نہیں رہا


ابرار ندیم

No comments:

Post a Comment