کھویا تجھے تو کوئی بھی دھڑکا نہیں رہا
حد ہے کہ اپنا آپ بھی اپنا نہیں رہا
اک درد ہے کہ دل میں کوئی دِیپ ضوفشاں
اک یاد ہے کہ میں کبھی تنہا نہیں رہا
تُو جا چکا ہے اور یہ کرتے ہیں ہم حساب
کیا کیا رہا ہے، اور اب کیا کیا نہیں رہا
باقی تو خیر آج بھی پہلے سا ہے وہ تُو
پر، تجھ پہ اختیار کا دعویٰ نہیں رہا
اُڑتی ہے ریت چار سُو آنکھوں میں ہِجر کی
دل میں جو موجزن تھا، وہ دریا نہیں رہا
ابرار ندیم
No comments:
Post a Comment