رہبر جو زندگی کا مذاقِ خلیل ہے
ہر ذرہ کائنات کا اک سنگِ میل ہے
پیدا کیا گیا ہوں مٹایا بھی جاؤں گا
میرا وجود مِرے عدم کی دلیل ہے
وقتِ فنا بھی کم نہیں ہوتا تِرا سرور
اے زندگی! تُو کتنی حسین و جمیل ہے
اک میں ہوں اور جرمِ تمنا ہے میرے ساتھ
شہرِ جفا میں جو بھی ہے اُس کا وکیل ہے
ساقی ہے شکوہ سنج کہ مے کش ہیں تنگ ظرف
رِندوں کو یہ گلہ ہے کہ ساقی بخیل ہے
اے بیکسیٔ تشنہ لبی اِس کو کیا کروں
جس سمت دیکھتا ہوں سرابوں کی جھیل ہے
اک پیکرِ جفا ہے تو اک خُوگرِ وفا
اِس کا کوئی جواب نہ اُس کا مثیل ہے
دیکھو تو ایک لمحہ کی مانند زندگی
سوچو عزیز اس پہ تو صدیوں طویل ہے
عزیز بگھروی
No comments:
Post a Comment