محبتوں کے جہاں کارواں گزرتے ہیں
قیامتوں کے وہاں امتحاں گزرتے ہیں
یقیں کی منزلِ مقصود عشق کا مطلوب
ہوس کی راہ سے تو بس گماں گزرتے ہیں
اسی فراق کے لحظے میں رک گیا جیون
تمہارے ہجر کے لمحے کہاں گزرتے ہیں
بدن کے ساتھ مری روح بھی دمک اٹھی
حریمِ جان سے وہ جانِ جاں گزرتے ہیں
بھرا ہے چشم کا کشکول آبِ گریہ سے
فراق و ہجر کے موسم گراں گزرتے ہیں
سرِ فرات ہے پہرہ ستم شعاروں کا
عطش میں ڈوب کے تشنہ لباں گزرتے ہیں
وہیں ہے عاطفِ بےخانماں کی قبر جہاں
تمہارے پاؤں کے مہکے نشاں گزرتے ہیں
عاطف خالد بٹ
No comments:
Post a Comment