مہاجر
میں اپنی نانو کی سہمی سہمی
اُجڑتی آنکھوں کو دیکھتی ہوں
تو سوچتی ہوں
کہاں گیا ہے
چلہار کا ٹھنڈا میٹھا پانی
پُھدکتی چڑیاں شجر کی شاخوں پہ جھولتی تھیں
پھلوں سے جُھکتی جوان شاخیں
زمیں پہ اُگتے ہزار پُھولوں سے کھیلتی تھیں
مثال جنت تھے گاؤں میرے
سجے تھے پائل سے پاؤں میرے
کئی خزانوں بھرے بھڑولے
اس ایک گاؤں میں سکھ مسلمان اور ہندو بسے ہوئے تھے
نہ طعنہ دیتے نہ قتل کرتے نہ کُفر کے وہ لگاتے فتوے
صائمہ قمر
No comments:
Post a Comment