متاع عشق ذرا اور صرف ناز تو ہو
تضیع عمر کا آخر کوئی جواز تو ہو
بہم دگر کوئی شب اس سے لب بہ لب تو چلے
ہوائے شوق کچھ آلودۂ مجاز تو ہو
قدم قدم کوئی سایہ سا متصل تو رہے
سراب کا یہ سر سلسلہ دراز تو ہو
وہ کم سخن نہ کم آمیز پھر تکلف کیا
کچھ اس سے بات تو ٹھہرے کچھ اس سے ساز تو ہو
وفا سے منزل ترک وفا تک آ نکلے
کسی بہانے تو پتھر کبھی گداز تو ہو
شفق کنایۂ لب شام استعارۂ زلف
کبھی خیال وسیلوں سے بے نیاز تو ہو
حضور ناز عبث ہے خیال جاں گوہر
نیاز محرم خمیازۂ نیاز تو ہو
گوہر ہوشیارپوری
No comments:
Post a Comment