مرے دل ذرا ٹھہر جا تجھے کیسی بے کلی ہے
بھلا اس سے مل کے پہلے ترا درد کم ہوا ہے
کبھی دید کی وہ برکھا کبھی لطف کا وہ ساون
کبھی چاہتوں کی شبنم تیرا غم بُھلا سکی ہے
جو دھک رہے ہیں شعلے کیا انہیں بُجھا سکی ہے
مرے دل ذرا ٹھہر جا تجھے کیسی بے کلی ہے
تو ملا ہے جب بھی اس سے
تو اداسیوں کے سائے کچھ بڑھ گئے ہیں
محرومیوں کے کانٹے، مجبوریوں کے نشتر
کچھ اور گڑ گئے ہیں
کوئی بات جب بھی کی ہے
اک ان کہی کا سایہ یوں درمیاں رہا ہے
وہ مل سکا نہ تجھ کو احساس اس زیاں کا
کچھ اور بڑھ گیا ہے
سو یہ میرا مشورہ ہے مت اس سے ملنے جاؤ
جو سو گئے ہیں جذبے انہیں پھر سے مت جگاؤ
تم کہاں کے دانا میری بات مانتے ہو حالانکہ جانتے ہو
کہ ملے ہو جب بھی اس سے دکھ اور بڑھ گئے ہیں
اک آگ پھر لگی ہے مرے
مرے دل ذرا ٹھہر جا تجھے کیسی بے کلی ہے
پروفیسر جاوید اقبال
No comments:
Post a Comment