Thursday, 15 February 2024

مشعل سا کوئی پھول کھلا خاک پر نہیں

 مشعل سا کوئی پُھول کِھلا خاک پر نہیں

یہ اس لیے کہ روشنی اب چاک پر نہیں

مجھ سے کہا گیا ہے کہ میں صبر ہی کروں

میٹھا جو کوئی پھل ہو، ابھی تاک پر نہیں

جلنے لگا ہوں جسم کے اندر سے میں کہیں

ہجراں کی آگ اب مِری پوشاک پر نہیں

صحرا، میاں تُو خُود کو گلے سے لگا کے دیکھ

حیرت جو میرے دیدۂ نمناک پر نہیں

دیکھو، یہ آبشار، پرندے، حسین پیڑ

لگتا ہے جیسے کوہ و دمن خاک پر نہیں

چلتا ہے کوئی زورِ دلِ ناتواں پہ بس

کچھ بھی توانا، سر کش و بے باک پر نہیں

ان میں سے ایک پر کوئی وعدہ بھی تھا تِرا

گُزرا ہوا زمانہ جن اوراق پر نہیں

آنکھوں کے بھیگنے کی ستاروں کو کیا خبر

بارش جو خاک پر ہے وہ افلاک پر نہیں

ملبہ اُٹھا کے لے گئے وہ انہدام سے

مِسمار ہو کے بھی کوئی اب خاک پر نہیں

ہاں اس لحاظ سے مجھے مُفلس خیال کر

دُنیا مِری نظر تِری املاک پر نہیں

ڈرتا ہوں خُود ہدف نہ اسی تیر کا بنوں

فتراک میں جو بوجھ سا فتراک پر نہیں

انجان سا جو خوف برابر میں آ بسا

پہلے سی وہ گرِفت مِری دھاک پر نہیں

عارف میں جس کو چُھونے لگا ہوں خیال میں

شاید اسے یقیں مِرے ادراک پر نہیں


عسکری عارف

No comments:

Post a Comment