چپکے چپکے تنہائی میں کس کے لیے اب روتی ہوں
گِیلی مٹی کے دامن میں فصل گُلوں کی بوتی ہوں
کیسا دھڑکا دل کو لگا ہے، اب کیا ہونے والا ہے
مٹی کے خالی دِیپک میں بُجھتی ہوئی ایک جَوتی ہے
کب سے بُھول چکی ہوں خُود کو،اب تو مِرا یہ عالم ہے
جب وہ جگائے اُٹھ جاتی ہوں، جب وہ چاہے سوتی ہوں
ہار گئی میں جِیت کے بازی دُنیا کے بازاروں میں
پاس مِرے سب میرا دَھن ہے، پَل پَل جو کو کھوتی ہوں
سچے تھے بس دو ہی رشتے، باقی سب جنجال ہُوا
وہ بھی میرے پاس نہیں میں جن آنکھوں کی جَوتی ہوں
سونے چاندی کی قیمت ہے دُنیا کے بازاروں میں
جو ہر قیمت سے بالا ہے، میں وہ سچا موتی ہوں
جاتے جاتے اس دُنیا کو کچھ تو دے کر جاؤں گی
سُکھ دُکھ کے یہ سارے موتی ان کے لیے سنجوتی ہوں
نسیم مخموری
No comments:
Post a Comment