Sunday, 18 February 2024

کٹ گئے جال سارے پھنسنے کے

 اب اجڑنے کے ہم نہ بسنے کے

کٹ گئے جال سارے پھنسنے کے

تجربوں میں نہ زہر ضائع کر

سیکھ آداب پہلے ڈسنے کے

اس سے کہیو جو خود میں ڈوبا ہے

تجھ پہ بادل نہیں برسنے کے

ملنا جلنا ابھی بھی ہے لیکن

ہاتھ سے ہاتھ اب نہ مسنے کے

نقش ثانی ہیں جھلملاتے سراب

نقش اول تھے پاؤں دھنسنے کے

ایسا ویراں ہوا ہے دل اس بار

اب کے امکاں نہیں ہیں بسنے کے

روٹھے بچوں سے چھیڑ کرتا ہوں

ڈھونڈتا ہوں بہانے ہنسنے کے


بکل دیو

No comments:

Post a Comment