پھر نئی محفل سجا لی جائے گی
پھر نظر ہم سے چُرا لی جائے گی
پُوچھنا ہے اُن کی نظروں سے مجھے
دل کی حسرت کب نکالی جائے گی
بعد مرنے کے اگر آیا پیام
بات اُن کی کیسے ٹالی جائے گی
سوچتا ہوں میں تِرے جانے کے بعد
زندگی کیسے سنبھالی جائے گی
اس قدر ظُلم و ستم اچھا نہیں
آہ دل کی ہے، نہ خالی جائے گی
دے کے مجھ کو موت کا پیہم پیام
زندگی میری بچا لی جائے گی
سوز! زُلفِ یار کو برہم نہ کر
بات بگڑی پھر بنا لی جائے گی
ڈاکٹر سردار سوز
No comments:
Post a Comment