دل کے زخموں کو زمانے سے چھپانے کے لیے
ہنسنا پڑتا ہے یہاں سب کو دکھانے کے لیے
کب سے بیٹھے ہیں مری آنکھ کی انگنائی میں
خواب بچوں کی طرح شور مچانے کے لیے
اپنے دیدار کا شربت تو پلا دے ہم کو
ہم تو آئے ہیں ترے شہر سے جانے کے لیے
میرے اشعار ہی دولت یہ خزانہ ہے میرا
ڈھونڈتا رہتا ہوں کچھ سانپ خزانے کے لیے
روندنے کے لیے تیار ہیں سارے اپنے
کوئی راضی ہی نہیں مجھ کو اٹھانے کے لیے
تجربے اپنے کہاں تک لکھیں راہی ہم بھی
اب تو مصرع بھی نہیں کوئی اٹھانے کے لیے
راکیش راہی
No comments:
Post a Comment