Tuesday, 13 February 2024

دل کے زخموں کو زمانے سے چھپانے کے لیے

 دل کے زخموں کو زمانے سے چھپانے کے لیے

ہنسنا پڑتا ہے یہاں سب کو دکھانے کے لیے

کب سے بیٹھے ہیں مری آنکھ کی انگنائی میں

خواب بچوں کی طرح شور مچانے کے لیے

اپنے دیدار کا شربت تو پلا دے ہم کو

ہم تو آئے ہیں ترے شہر سے جانے کے لیے

میرے اشعار ہی دولت یہ خزانہ ہے میرا

ڈھونڈتا رہتا ہوں کچھ سانپ خزانے کے لیے

روندنے کے لیے تیار ہیں سارے اپنے

کوئی راضی ہی نہیں مجھ کو اٹھانے کے لیے

تجربے اپنے کہاں تک لکھیں راہی ہم بھی

اب تو مصرع بھی نہیں کوئی اٹھانے کے لیے


راکیش راہی

No comments:

Post a Comment