پال رکھتے ہیں کئی روگ پرانے والے
ہجر کو ڈوبتے سورج سے ملانے والے
حال کس حال میں لکھتے ہیں تجھے علم کہاں
بِن پڑھے خط کے تراشے کو جلانے والے
ہم نے امیدِ ملاقات پہ کاٹا جیون
مڑ کے آئے ہی نہیں ہاتھ چھڑانے والے
پہلے پہلے کہ سرابوں پہ یقیں ہوتا تھا
اور پھر خواب ہوئے خواب دکھانے والے
بات کرنے کا ہنر سیکھ لو مجھ سے آ کر
تجھ میں وہ بات کہاں بات بنانے والے
اُن کے قدموں کے نشاں بھی نہ کوئی ڈھونڈ سکا
ایک دن خاک ہوئے خاک اڑانے والے
رمیکا منال
No comments:
Post a Comment