نئی تقویم
نئی تقویم ہے یا نامہ اعمال کا نیا دفتر
کہ جس میں درج ہوں گے
روز میرے وہ محاسن
جو کہ دنیا کی نگاہوں میں محاسن ہیں
مگر سچ یہ کہ میرے توشۂ عقبیٰ میں ان کا نام نہ ہو گا
میری طرح ہر اک انساں
مہد سے اک سفر آغاز کرتا ہے
لحد تک جب پہنچتا ہے
تو کتنے سال کا انبار اس کے ساتھ جاتا ہے
فقط اعمال کی صورت
مگر اس کی نہیں پرواہ
وہ دنیا میں مگن ہو کر
فقط دنیا کے ہی جنجال کو
تقویم کے کاغذ پہ لکھتا ہے
نئی تقویم اب کی بار
کچھ اس طرح مرتب ہو
کہ اس کے اک طرف اک گوشوارہ ہو
اسے عنوان دینا
“روح کی تسکین “
پھر اس کی ذیل میں ہر رو ز لکھنا
خدا کا کوئی سا ایسا فرض
جس کی تھی تمہیں حسرت
وہ بالآخر نبھایا ہو
بشر کا کوئی ایسا قرض
جو، تھا تم پر نہیں واجب
مگر پھر بھی چکایا ہے
نئی تقویم اب کی بار
کچھ اس طرح مرتب ہو، تو یہ سمجھو
کہ تم نے انبیاء کی اولیاء کی لاج رکھی ہے
وگرنہ پھر وہی تقویم ہے
اور بس وہی پچھلے برس جیسی
مقید زندگی جو
قلب کی سچائی سے غافل
زمانے کے ہر اک جھوٹے سہارے کو
خدا کہہ کر
بلندی کے حسیں خوابوں
میں ہی اکثر کھوئی رہتی ہے
سفر جاری ہے خورشیدِ کہن کا
ہر اک صُبح عیاں ہو کر
زمانے میں اذانِ نور کی نوبت بجاتی ہے
کہ بیداری ہی روحِ زندگی ہے
مگر یہ زندگی غفلت کو اوڑھے سوئی رہتی ہے
قرن گزرے مگر ہاں بج رہی ہے
اذانِ نور کی نوبت ہمہ دم
نئی تقویم کا وہ گوشوارہ
بھرے گا پھرکوئی بیدار ہو کر
ارم اقبال نقوی
No comments:
Post a Comment