Friday, 16 February 2024

میرے خلاف آکاش میں کوئی سازش کرتا رہتا ہے

 میرے خلاف آکاش میں کوئی سازِش کرتا رہتا ہے

میری قسمت والا تارا گردِش کرتا رہتا ہے

دودھ کی خالی بوتل سے بھی بچّے کا ہے عشق عجیب

تھک جاتے ہیں ہونٹ, مگر وہ کاوِش کرتا رہتا ہے

باغ انگور کے چھوڑ آیا تھا سرحد پار جوانی میں

پاگل بوڑھا پَل پَل کِشمِش کِشمِش کرتا رہتا ہے

تُو کانٹوں کو بوسے دیتی رہنا اے میری خوشبو

مُرجھانے سے پہلے پھول گزارِش کرتا رھتا ہے

پہنچ کے منزل پر بھی بُھولا نہیں سفر کے محسن کو

پھٹے پرانے جوتے پر وہ پالِش کرتا رہتا ہے

 

پروین کمار اشک

No comments:

Post a Comment