بس دکھا دے راہ مے خانہ کوئی
لے چلے یا سوئے ویرانہ کوئی
کیا ملا فرزانوں میں رہ کر مجھے
ان سے تو بہتر ہے دیوانہ کوئی
رہ گزار شوق کا ہے یہ کرم
ہو گیا اپنا ہی بے گانہ کوئی
آج کے حالات پر لکھوں تو کیا
گر لکھوں سمجھو گے افسانہ کوئی
میں ہوں اور تنہائیوں کا دشت ہے
درد کو میرے نہیں جانا کوئی
میں نے بھی سیکھا ہے دنیا سے بہت
سیکھے مجھ سے بھی تو غم کھانا کوئی
کہتے ہیں ساحل سے اکثر مہرباں
ہے غزل یا حرف رندانہ کوئی
اشوک ساہنی ساحل
No comments:
Post a Comment