Monday, 19 February 2024

بس دکھا دے راہ میخانہ کوئی

 بس دکھا دے راہ مے خانہ کوئی

لے چلے یا سوئے ویرانہ کوئی

کیا ملا فرزانوں میں رہ کر مجھے

ان سے تو بہتر ہے دیوانہ کوئی

رہ‌ گزار شوق کا ہے یہ کرم

ہو گیا اپنا ہی بے گانہ کوئی

آج کے حالات پر لکھوں تو کیا

گر لکھوں سمجھو گے افسانہ کوئی

میں ہوں اور تنہائیوں کا دشت ہے

درد کو میرے نہیں جانا کوئی

میں نے بھی سیکھا ہے دنیا سے بہت

سیکھے مجھ سے بھی تو غم کھانا کوئی

کہتے ہیں ساحل سے اکثر مہرباں

ہے غزل یا حرف رندانہ کوئی


اشوک ساہنی ساحل

No comments:

Post a Comment