زندگی موت کی تماشائی ہے
آج پھر اس کو ملنے آئی ہے
سر سراتی ہوئی یہ تنہائی
در و دیوار پہ لہرائی ہے
ڈر مِرے دِل میں چُھپ کے رہتا ہے
جیسے برسوں کی شناسائی ہے
زندگی کے اُٹھاؤں ناز میں کیا
اس کا شیوہ ہی بے وفائی ہے
چھُونے سے ہی بکھر گئیں پتیاں
کتنی مستانہ یہ پُروائی ہے
بال کھولے ہوئے شبِ ہجراں
آج پھر مجھ سے مِلنے آئی ہے
بے وفائی تِرا مقدر ہے
شمعِ وفا تُو نے کیوں جلائی ہے
وہ نہیں آئے جن کی خاطر
بزم یاراں مگر سجائی ہے
رُخِ گُل کی رنگینیاں پا کر
مستی گلشن پہ کیسی چھائی ہے
جانے کیسا تھا یہ وصالِ سحر
نہ وہ آئے نہ صورت ہمیں دکھائی ہے
نرگس جمال سحر
No comments:
Post a Comment