Tuesday, 20 February 2024

اس عشق میں گواہ نہ کوئی دلیل ہے

 اس عشق میں گواہ نہ کوئی دلیل ہے

منصف بھی دل ہے اور یہ دل ہی وکیل ہے

وہ آج پھر مکر گیا وعدے سے وصل کے

میری گزارشوں پہ وہی قال و قیل ہے

ظالم ہو بادشاہ تو رب نے بتا دیا

فرعون وقت کے لیے دریائے نیل ہے

ہو جائے گا طویل تری بے وفائی سے

یہ فاصلہ جو عشق کا دو چار میل ہے

مہکی ہوئی ہے ان سے مرے دل کی کائنات

یادوں کے کچھ کنول ہیں تصور کی جھیل ہے

برباد مت کرو اسے نفرت کی آگ سے

دنیا محبتوں کی حسین و جمیل. ہے

انصاف کس سے مانگیے ظالم کے شہر میں

یاں تو نہ عدلیہ ہے نہ کوئی عدیل ہے

جو چاہے آئے شہر محبت میں اے حسن

در پہ نہ کوئی اور نہ کوئی فصیل ہے


حسن فتحپوری

حسن مصطفیٰ رضوی

No comments:

Post a Comment