اب بچھڑنے کو بھی ہم طور نیا دیتے ہیں
جانے والوں کو ہم آنکھوں سے صدا دیتے ہیں
جِس سے رب راضی ہوا، اُس کو دئیے ہیں پنجتنؑ
اور پنجتنؑ جو ہوں راضی تو خدا دیتے ہیں
یار سارے ہی بڑے دل کے ملے ہیں مجھ کو
جب بھی دیتے ہیں مجھے زخم بڑا دیتے ہیں
ہم سے جو پیار کرے اُس کو لگاتے ہیں گلے
اور اِک بوسہ بھی ہم اس کے سِوا دیتے ہیں
ہائے وہ لوگ، ترے ہجر کے مارے ہوئے لوگ
اپنے ہونے کو نہ ہونے کی سزا دیتے ہیں
چوٹ گہری ہو تو پھر شعر مزا دیتا ہے
بال چاندی ہوں تو پھر رنگِ حِنا دیتے ہیں
ہم ہیں غُربت میں گُزارے ہوئے ایّام جنہیں
لوگ جب تخت پہ آتے ہیں، بُھلا دیتے ہیں
سفیر نوتکی
No comments:
Post a Comment