Wednesday 21 February 2024

بکھر گیا ہے تو خود کو سنبھال وقت نکال

 بکھر گیا ہے تو خود کو سنبھال، وقت نکال

شکست بُھول کے سوچیں اُجال، وقت نکال

نہیں ہے وقت حساب و کتاب کا باقی

سو خُود کو معافی تلافی میں ڈھال، وقت نکال

سفر پہ چلنا ہے تنہا، سو تنہا رہنا سیکھ

اب اپنا بوجھ کسی پر نہ ڈال، وقت نکال

تُو کون ہے، کیا ہے، کہاں سے ہے، کیوں ہے

بنا کے خُود کو مجسّم سوال، وقت نکال

ہُوا ہے کیا، ہو گا نہ جانے کیا، کیوں کر؟

مِٹا کے ذہن سے ایسے سوال، وقت نکال

بہت سے کام تھے کرنے مگر وہ کر نہ سکے

ادھورے پن کو بنا کے ملال، وقت نکال

بوقتِ شام اندھیرے تو جاں پہ اتریں گے

سو ظُلمتوں میں بھی ہو کر نہال، وقت نکال

دِیے کی لو کی طرح زندگی گُزاری ہے

ضمیر و دل کو بنا کر مثال، وقت نکال

بلند و پست کے جھگڑوں سے لینا دینا کیا

عروج ہو کہ تبسم زوال، وقت نکال

ضعیفی، ماضی کی لغزش، ضمیر و دل کی صدا

پڑے جو سر پہ تبسّم نہ ٹال، وقت نکال


رفیع تبسم

No comments:

Post a Comment