Friday 16 February 2024

جو ترے روئے درخشاں پہ نظر رکھتے ہیں

 جو ترے روئے درخشاں پہ نظر رکھتے ہیں

وہ خیالوں میں کہاں شمس و قمر رکھتے ہیں

راستہ یہ تِری چاہت کا نکالا ہم نے

بس تِرے چاہنے والوں پہ نظر رکھتے ہیں

وہ بہت دور ہیں اس بات کا غم ہے لیکن

یہ بہت ہے وہ مِری خیر خبر رکھتے ہیں

ہم تِرے غم کو چھپائیں تو چھپائے کیسے

دشمنی مجھ سے مِرے دیدۂ تر رکھتے ہیں

بار ہا بار ثمر ہنس کے اٹھایا ہم نے

شاخ نازک ہیں مگر ماں کا جگر رکھتے ہیں

پھر تِرے ظلم کی زد پر نہ کہیں آ جائیں

ایسے مظلوم جو آہوں میں اثر رکھتے ہیں

سر بلندی کا نشہ جن کو چڑھا ہے ساقی

شوق سے وہ تِری دہلیز پہ سر رکھتے ہیں

منزلیں ان کی قدم بوس ہوئی ہیں اکثر

خود کو جو راہ میں سرگرم سفر رکھتے ہیں

ہم سمن درد کے سائے میں تبسم لب پر

رکھنا ہوتا تو ہے دشوار مگر رکھتے ہیں


سمن دُگل

No comments:

Post a Comment