میں جی رہا ہوں تیرا سہارا لیے بغیر
یہ زہر پی رہا ہوں گوارا کیے بغیر
بکتا نہ کاش عشق کی قیمت لیے بغیر
میں ان کا ہو گیا انہیں اپنا کیے بغیر
واقف تو ہوں وفا کے نتیجے سے ہم نشیں
بنتی نہیں ہے ان پہ بھروسا کیے بغیر
کیا زندگی ہے اہل گلستاں کی زندگی
گل ہنس رہے ہیں چاک گریباں سیے بغیر
دن رات ہم نے غم کی حفاظت تو کی مگر
دنیا نہ رہ سکی ہمیں رسوا کیے بغیر
مرنے کی آرزو مجھے مدت سے ہے مگر
لیکن یہ کام ہو نہیں سکتا جیے بغیر
ان کی نگاہ مست کے صدقے میں مدتوں
اک بے خودی کا دور رہا ہے پیے بغیر
برق چمن حدود چمن سے نکل کے دیکھ
تاریک ایک اور بھی گھر ہے دیے بغیر
اے راج! راس آ نہ سکی محفل حیات
ہم آ گئے تھے کس کی اجازت لیے بغیر
بلدیو راج
No comments:
Post a Comment