Wednesday 14 February 2024

میں جی رہا ہوں تیرا سہارا لیے بغیر

 میں جی رہا ہوں تیرا سہارا لیے بغیر

یہ زہر پی رہا ہوں گوارا کیے بغیر

بکتا نہ کاش عشق کی قیمت لیے بغیر

میں ان کا ہو گیا انہیں اپنا کیے بغیر

واقف تو ہوں وفا کے نتیجے سے ہم نشیں

بنتی نہیں ہے ان پہ بھروسا کیے بغیر

کیا زندگی ہے اہل گلستاں کی زندگی

گل ہنس رہے ہیں چاک گریباں سیے بغیر

دن رات ہم نے غم کی حفاظت تو کی مگر

دنیا نہ رہ سکی ہمیں رسوا کیے بغیر

مرنے کی آرزو مجھے مدت سے ہے مگر

لیکن یہ کام ہو نہیں سکتا جیے بغیر

ان کی نگاہ مست کے صدقے میں مدتوں

اک بے خودی کا دور رہا ہے پیے بغیر

برق چمن حدود چمن سے نکل کے دیکھ

تاریک ایک اور بھی گھر ہے دیے بغیر

اے راج! راس آ نہ سکی محفل حیات

ہم آ گئے تھے کس کی اجازت لیے بغیر


بلدیو راج

No comments:

Post a Comment