جب سے وہ میرے خواب کی تعبیر بن گئے
میرے لیے اندھیرے بھی تنویر بن گئے
تھا ناز اپنے حسن پہ ہم کو بہت مگر
دیکھا انہیں تو حیرتِ تصویر بن گئے
ان کے نگاہِ شوخ کے انداز پر نثار
برچھی کبھی بنے تو کبھی تیر بن گئے
پوچھا جو حالِ یار تو آنکھیں چھلک پڑیں
قطرے گرے جو اشک کے تحریر بن گئے
یارو! بہت قریب تھی منزل مِری، مگر
چھالے ہی میرے پاؤں کی زنجیر بن گئے
پھولوں میں تھی گزرتی کبھی اپنی زندگی
کانٹے ہی اب تو دامنِ تقدیر بن گئے
کامل جو لوگ ہم پہ اٹھاتے تھے انگلیاں
وہ بھی اسیرِ زلف گرہ گیر بن گئے
ریاض الدین کامل
No comments:
Post a Comment