Tuesday 13 February 2024

جب سے وہ میرے خواب کی تعبیر بن گئے

 جب سے وہ میرے خواب کی تعبیر بن گئے

میرے لیے اندھیرے بھی تنویر بن گئے

تھا ناز اپنے حسن پہ ہم کو بہت مگر

دیکھا انہیں تو حیرتِ تصویر بن گئے

ان کے نگاہِ شوخ کے انداز پر نثار

برچھی کبھی بنے تو کبھی تیر بن گئے

پوچھا جو حالِ یار تو آنکھیں چھلک پڑیں

قطرے گرے جو اشک کے تحریر بن گئے

یارو! بہت قریب تھی منزل مِری، مگر

چھالے ہی میرے پاؤں کی زنجیر بن گئے

پھولوں میں تھی گزرتی کبھی اپنی زندگی

کانٹے ہی اب تو دامنِ تقدیر بن گئے

کامل جو لوگ ہم پہ اٹھاتے تھے انگلیاں

وہ بھی اسیرِ زلف گرہ گیر بن گئے


ریاض الدین کامل

No comments:

Post a Comment