جو خشک جھیل کی مٹی سے آب مانگتے ہیں
وہ اندھ کار سے رنگوں کے خواب مانگتے ہیں
لہو پلاتے ہیں جو لوگ ہم کو جیون بھر
وہ شام ہوتے ہی کیوں کر شراب مانگتے ہیں
انہیں خبر ہی نہیں ہے خود اپنے ہونے کی
جو ہر سوال سے پہلے جواب مانگتے ہیں
وہ قتل کرنے کی آتے ہیں خواہشیں لے کر
جو مانگتے ہیں تو تازہ گلاب مانگتے ہیں
بھلا کے رکھتے ہیں جو لوگ سچ کی کڑواہٹ
جو میٹھے لفظوں کی ہر دم نقاب مانگتے ہیں
خدا کی راہ سے غافل ہیں جو وہی راہی
خُدا سے اپنے دُکھوں کا حساب مانگتے ہیں
راکیش راہی
No comments:
Post a Comment