Wednesday 21 February 2024

یہ نہ سوچو کہ تھی آپس میں محبت کیسی

 یہ نہ سوچو کہ تھی آپس میں محبت کیسی

اب وہ دشمن ہے تو پھر اس سے مروت کیسی

سوچتے سوچتے یہ عمر گزر جائے گی

آنے والی ہے خدا جانے مصیبت کیسی

جب چراغوں کی حفاظت نہیں ہوتی تم سے

پھر اندھیرا ہے گھروں میں تو شکایت کیسی

چھین لے اپنی سبھی نعمتیں پہلے مجھ سے

پھر یہ احساس دلا ہوتی ہے غربت کیسی

دیکھنا تم کبھی خیرات محبت دے کر

دل میں درویش کے بڑھ جاتی ہے عزت کیسی

جس کی لاٹھی میں ہے دم بھینس بھی اس کی ہو گی

ظلم کیا جانے کہ ہوتی ہے شرافت کیسی

یہ ہنر بھی تو سکھایا ہے تمہیں نے شاطر

آج وہ مد مقابل ہے تو حیرت کیسی


عقیل شاطر انصاری

No comments:

Post a Comment