یہ نہ سوچو کہ تھی آپس میں محبت کیسی
اب وہ دشمن ہے تو پھر اس سے مروت کیسی
سوچتے سوچتے یہ عمر گزر جائے گی
آنے والی ہے خدا جانے مصیبت کیسی
جب چراغوں کی حفاظت نہیں ہوتی تم سے
پھر اندھیرا ہے گھروں میں تو شکایت کیسی
چھین لے اپنی سبھی نعمتیں پہلے مجھ سے
پھر یہ احساس دلا ہوتی ہے غربت کیسی
دیکھنا تم کبھی خیرات محبت دے کر
دل میں درویش کے بڑھ جاتی ہے عزت کیسی
جس کی لاٹھی میں ہے دم بھینس بھی اس کی ہو گی
ظلم کیا جانے کہ ہوتی ہے شرافت کیسی
یہ ہنر بھی تو سکھایا ہے تمہیں نے شاطر
آج وہ مد مقابل ہے تو حیرت کیسی
عقیل شاطر انصاری
No comments:
Post a Comment