Sunday, 18 February 2024

ہم تاسف سے ہاتھ ملتے رہے

 ہم تاسف سے ہاتھ ملتے رہے

آستینوں میں سانپ پلتے رہے

ہم بھی مثلِ چراغِ تنہائی

اس کی محفل میں رات جلتے رہے

غیر آ آ کے دے گئے مٹی

وہ پرے دُور ہی ٹہلتے رہے

زندگی بے دلی سے کٹتی رہی

دل میں ارماں یونہی مچلتے رہے


تمیز دہلوی

تمیزالدین 

No comments:

Post a Comment