سر خوشی میرے لیے اسباب غم میرے لیے
موجزن ہے جیسے دریائے کرم میرے لیے
ہر ستم میرے لیے ہے، ہر کرم میرے لیے
حُسن کے جلوے ہیں سارے بیش و کم میرے لیے
کیا حقیقت ہے غمِ ہستی کی میرے سامنے
آئے دن ہی گردنِ مِینا ہے خم میرے لیے
عشق کی بے تابیاں ہیں حُسن کی رعنائیاں
ہو گئے ہیں زیست کے ساماں بہم میرے لیے
خُود پشیماں ہوں میں اپنے نالۂ شبگیر پر
اُف وہ چشمِ کیف آگیں اور نم میرے لیے
دل کی عظمت کیا کہوں دل کی حقیقت کیا کہوں
جیسے ہم آغوش ہوں دیر و حرم میرے لیے
عشق کی معجز نمائی کیف اب کیا پوچھیے
بار ہستی ہو گیا ہے خود ہی کم میرے لیے
سرسوتی سرن کیف
No comments:
Post a Comment