Sunday 18 February 2024

سرخوشی میرے لیے اسباب غم میرے لیے

 سر خوشی میرے لیے اسباب غم میرے لیے

موجزن ہے جیسے دریائے کرم میرے لیے

ہر ستم میرے لیے ہے، ہر کرم میرے لیے

حُسن کے جلوے ہیں سارے بیش و کم میرے لیے

کیا حقیقت ہے غمِ ہستی کی میرے سامنے

آئے دن ہی گردنِ مِینا ہے خم میرے لیے

عشق کی بے تابیاں ہیں حُسن کی رعنائیاں

ہو گئے ہیں زیست کے ساماں بہم میرے لیے

خُود پشیماں ہوں میں اپنے نالۂ شبگیر پر

اُف وہ چشمِ کیف آگیں اور نم میرے لیے

دل کی عظمت کیا کہوں دل کی حقیقت کیا کہوں

جیسے ہم آغوش ہوں دیر و حرم میرے لیے

عشق کی معجز نمائی کیف اب کیا پوچھیے

بار ہستی ہو گیا ہے خود ہی کم میرے لیے


سرسوتی سرن کیف

No comments:

Post a Comment