Wednesday 14 February 2024

خود سے اس نے نجات پا لی ہے

 خود سے اس نے نجات پا لی ہے

راہ نونیت نے نکالی ہے

خشک آنکھوں کے آس پاس کہیں

دل نے اک جھیل سی بنا لی ہے

لہلہاتے ہیں درد کے پودے

عشق کا باغ، یاد مالی ہے

روند جاتا ہے یہ کناروں کو

اسے دریا کہیں؟ موالی ہے

ایک تصویر کو ہٹایا بس

دل کی دیوار خالی خالی ہے

آپ کا نام بھی نہیں لیتے

پیاس ہونٹوں پہ اب سجا لی ہے

اے تھکن کچھ تو بول، کیا تُو نے

منزلوں میں جگہ بنا لی ہے

میں ہوا کامیاب مر کر بھی

آنکھ قاتل نے وہ جُھکا لی ہے

کیا بھروسہ ملیں وہ یا نہ ملیں

ہم نے اک آرزو کما لی ہے


نونیت شرما

No comments:

Post a Comment