Saturday, 10 February 2024

ماں تو کہاں ہے دیکھ گھر سونا پڑا ہے

 ماں تُو کہاں ہے؟


دیکھ گھر سُونا پڑا ہے

چارپائی پر کوئی نہیں ہے

تیری لاٹھی پر کانپتے ہوئے ہاتھ کا لمس بھی باقی نہیں ہے

اور میں اب راہداری میں رُکا یہ سوچتا رہتا ہوں 

کہ کس کی دِھیمی چال کو راستہ دوں 

کس کی آغوشِ سکوں میں پناہ ڈھونڈوں؟

کسے ستاؤں، کسے مناؤں؟

کہاں ہے تُو کہ تیرے ہاتھ کی روٹی کا ذائقہ چکھنا ہے 

تیرے سالن کی سوندھی خُوشبو سے رُوح مہکانی ہے 

ناپسند کے سالن میں نمک تیز بتانا ہے

پھر سے نیا سالن بنوانا ہے 

کہاں ہے تُو ماں؟

اپنی جنت کو چُومنا ہے، آنکھوں سے لگانا ہے 

خُوشی سے گردن بانہیں ڈالے جُھوم جانا ہے

اور ابھی میری زندگی کے امتحان باقی ہیں

مجھے تیرے اُٹھے ہوئے ہاتھوں کی ضرورت ہے

تیرے ہِلتے لبوں سے قرآن سُن کر گھر سے جانا ہے 

اور ہاں، عیدی ختم ہو جائے تو تجھ سے پیسے مانگنے ہیں 

اور یہ اجازت مانگنی ہے

کہ بابا کو بِنا بتائے دوستوں کے ساتھ جانا ہے 

تُو ہینڈل کر لے گی ناں ماں؟

تُو نظر کیوں نہیں آتی ماں؟

میرا دل غم سے پھٹ نہ جائے 

ماں! تُو کہاں ہے میری ماں؟


خرم یاسین

No comments:

Post a Comment