Saturday, 17 February 2024

زندگی سے ملی تھی کہیں

 آج کے دن کی نظم


زندگی سے مِلی تھی کہیں

ساعتیں تھم گئی تھیں وہیں

وہ مہک چُھو کے گُزری مجھے

رُوح تک مُسکرانے لگی

کس قدر جان لیوا سفر

اور حسیں ہے رفاقت تِری

ساتھ چلنے لگی تھام کر

اُنگلیاں پیار کی

آج بھی نقش زندہ وہی

میں وہی تم وہی

زندگی سے مِلی تھی کہیں


رابعہ سرفراز

No comments:

Post a Comment