مسائل میں گِھرا ہے اک زمانہ، پھر کبھی جاناں
تمہارے وصل کا موسم سہانا، پھر کبھی جاناں
ابھی انسانیت کی سسکیاں، نوکِ قلم پر ہیں
لب و رُخسار و کاکُل کا فسانہ، پھر کبھی جاناں
مجھے افلاس، غُربت، بُھوک پر فی الحال لکھنا ہے
تِرے غم پہ بھی لکھوں گا کہا نا، پھر کبھی جاناں
ابھی کشمیر کی وادی مِرے فن کو بُلاتی ہے
تمہارا تذکرۂ دلبرانہ، پھر کبھی جاناں
منافق دور سے میں بھی اگر سمجھوتہ کر لیتا
تجھے اتنا بھی میں لگتا بُرا نہ، پھر کبھی جاناں
غلط فہمی ہی تیری دُور کر دیتے یقیناً ہم
سکوں کا بھی لمحہ ملا نہ، پھر کبھی جاناں
رفیع تبسم
No comments:
Post a Comment