Friday, 16 February 2024

اپنے کہتے ہیں کوئی بات تو دکھ ہوتا ہے

 اپنے کہتے ہیں کوئی بات تو دُکھ ہوتا ہے

ہنس کے کرتے ہیں اشارات تو دکھ ہوتا ہے

جن سے منسوب مِرے دل کی ہر اک دھڑکن ہو

وہ نہ سمجھیں مِرے جذبات تو دکھ ہوتا ہے

مجھ کو محروم کیا تم نے گِلہ کوئی نہیں

ہوں جو غیروں پہ عنایات تو دکھ ہوتا ہے

جسم و جاں جن کے لیے ہم نے لُٹا ڈالے ہوں

چھوڑ جائیں جو وہی ساتھ تو دکھ ہوتا ہے

دُور سے روز مسرت کا دکھا کر بادل

غم کی کرتے ہیں جو برسات تو دکھ ہوتا ہے

ہجر میں دن تو کسی طور گُزر جاتے ہیں

جلنے لگتی ہے کبھی رات تو دکھ ہوتا ہے

بے سبب چھوڑ دیا اس نے کوئی بات نہیں

لوگ کرتے ہیں سوالات تو دکھ ہوتا ہے

مجھ کو بے لوث محبت کے عوض میں شمسی

ہو عطا زخم کی سوغات تو دکھ ہوتا ہے


ہدایت اللہ شمسی

No comments:

Post a Comment