Saturday, 17 February 2024

دھوئیں کی اوٹ سے باہر بھی آ گیا ہوتا

 دھوئیں کی اوٹ سے باہر بھی آ گیا ہوتا

ہمارے ساتھ اگر رشتۂ ہوا ہوتا

اسے بھی شعلگی‌ٔ ربط کی شکایت تھی

سلگتی آنکھ کی درزوں میں اور کیا ہوتا

جہاں نہ پیڑ اگے تھے نہ آگ ہی برسی

وہاں ہمارے لیے کون سا خدا ہوتا

میں احتجاج سے باہر بھی سوچتا شاید

شب فرار اگر کوئی در کھلا ہوتا

تڑپ نہیں نہ سہی خیر مقدمی کے لیے

ترا تپاک نہ ہوتا ترا گلا ہوتا


واجد قریشی

No comments:

Post a Comment