دُعا نے کام کیا ہے، یقیں نہیں آتا
وہ میرے پاس کھڑا ہے، یقیں نہیں آتا
میں جس مقام پر آ کر رُکا ہوں شام ڈھلے
وہیں پہ وہ بھی رُکا ہے، یقیں نہیں آتا
وہ جس کی ایک جھلک کو ترس گئی تھی حیات
وہ آج جلوہ نما ہے، یقیں نہیں آتا
وہ جس کی آنکھ میں دونوں جہاں دکھائی پڑیں
وہ مجھ کو دیکھ رہا ہے، یقیں نہیں آتا
جسے صنم کبھی سمجھا، کبھی خدا جانا
وہ ایسا ہوشربا ہے، یقیں نہیں آتا
جو سوز بن کے سمایا تھا میرے شعروں میں
وہ ساز بن کے اُٹھا ہے، یقیں نہیں آتا
زمیں سے تابہ فلک گونجنے لگی ہے فضا
کچھ ایسا راگ چھڑا ہے، یقیں نہیں آتا
شگفتہ چہرہ اور اس پہ تپاں تپاں عارض
کوئی انار چھٹا ہے، یقیں نہیں آتا
زہے نصیب کہ لَو دے اُٹھی ہے تاریکی
سکوت بول پڑا ہے، یقیں نہیں آتا
حریم ناز کو دیکھو کہ آج پہلی بار
درِ نیاز کھلا ہے، یقیں نہیں آتا
یہ قیس پچھلے دنوں چپ سی لگ گئی تھی جسے
پھر آج نغمہ سرا ہے، یقیں نہیں آتا
راج کمار قیس
No comments:
Post a Comment