ان کو دیکھا تو طبیعت میں روانی آئی
دل کے اُجڑے ہوئے گلشن پہ جوانی آئی
پیاس کیا اس کی بُجھائیں گے کوئی عارض و لب
لبِ دریا نہ جسے پیاس بُجھانی آئی
گرمیٔ رنج و الم ہی میں بسر کی ہم نے
زندگی میں تو کوئی رُت نہ سُہانی آئی
اس کا عنوان تِرا نام ہی رکھا ہم نے
بُھولی بِسری جو کوئی یاد کہانی آئی
ہم محبت کا بھی مینار بنا سکتے تھے
ہم کو نفرت کی نہ دِیوار گرانی آئی
دیکھ کر اس گُلِ شاداب کو اک محفل میں
بعد مُدت کے پھر اک یاد پرانی آئی
آرزو دل کو تھی اے سوز غزلخوانی کی
راس آئی تو ہمیں مرثیہ خوانی آئی
ڈاکٹر سردار سوز
No comments:
Post a Comment