لوگوں کا اک ہجوم ہے ایسا نہیں ہے دوست
بس ایک تو ہی شہر میں تنہا نہیں ہے دوست
جس پر ہو عکس تھوڑا بہت میرے درد کا
ایسا کوئی نگاہ میں چہرہ نہیں ہے دوست
جس طرح آپ آئے سنا کر چلے گئے
اتنا بھی مختصر مرا قصہ نہیں ہے دوست
اک بات تم سے ملتے ہی ہم پر عیاں ہوئی
یہ دل ہمارے جسم کا حصہ نہیں ہے دوست
شاید یہ زندگی کا ہے اب آخری پڑاؤ
اب دل پہ اضطراب کا غلبہ نہیں ہے دوست
کرتا رہوں گا آخری لمحے تک انتظار
اس کے علاوہ کوئی بھی رستہ نہیں ہے دوست
سیف عرفان
No comments:
Post a Comment